رات کی آنکھ میں میرے لئے کچھ خواب بھی تھے
یہ الگ بات کہ ہر خواب میں گرداب بھی تھے
زندگی بانجھ سی عورت تھی کہ جس کے دل میں
بوند کی پیاس بھی تھی آنکھ میں سیلاب بھی تھے
زخم کیوں رسنے لگے اک ترے چھو لینے سے
دکھ سمندر تھے مگر موجۂ پایاب بھی تھے
چاند کی کرنوں میں آہٹ ترے قدموں کی سنی
اور پھر چاند کے ڈھل جانے کو بیتاب بھی تھے
تجھ سے جو لمحہ ملا لمحۂ مشروط ملا
وصل کی ساعتوں میں ہجر کے آداب بھی تھے
اژدہا پانیوں کا شہر نوا ٹوٹ گیا
ماتمی آنکھ میں آنسو مرے بے آب بھی تھے
کتنا آباد مرے ساتھ تھا سایوں کا ہجوم
کیسے تنہائی کے صحرا تھے جو شاداب بھی تھے
غزل
رات کی آنکھ میں میرے لئے کچھ خواب بھی تھے
منصور احمد