رات خود پر رو رہی ہے
صبح شاید ہو رہی ہے
تو اسے آ کر جگا جا
حسرت دل سو رہی ہے
کس کی آمد ہے جو کب سے
چاندنی گھر دھو رہی ہے
تخم تنہائی محبت
کشت دل میں بو رہی ہے
بے سبب کب تھی اداسی
وجہ بھی کچھ تو رہی ہے
ان سے کہہ پائی کہاں میں
بات دل میں جو رہی ہے
جانے کیوں دل ہے پریشاں
جانے کیا شے کھو رہی ہے

غزل
رات خود پر رو رہی ہے
مینو بخشی