EN हिंदी
رات کھڑی ہے سر پہ سنہرے دیوں کا تھال لیے | شیح شیری
raat khaDi hai sar pe sunahre diyon ka thaal liye

غزل

رات کھڑی ہے سر پہ سنہرے دیوں کا تھال لیے

خلیل رامپوری

;

رات کھڑی ہے سر پہ سنہرے دیوں کا تھال لیے
اے من تو بھی عمر بتا دے نقش خیال لیے

لمحے یہ بے رنگ پتنگے کب آتے ہیں ہاتھ
سارا سارا دن پھرتا ہے سورج جال لیے

پھلجھڑیاں سی چھوٹ رہی ہیں شام کے دامن میں
کون کھڑا ہے نارنگی سا چہرہ لال لیے

آج سمجھ میں آیا اپنی آنکھوں کا مفہوم
ہر انسان ہے صورت پر دو زخم ملال لیے

اجلی چاندنی رات سی آنکھیں اجلا دھوپ سا مکھ
ہائے رے وہ ہرنی سی لڑکی شوق وصال لیے

گھر والوں سے توڑ کے ناتا کس نے پایا مجھ کو
کہاں پھرو گے شاعر صاحب دست سوال لیے

گلزاروں میں بسنے والے بھکر دیس بھی دیکھ
تھل کا ریگستان بھی ہے گدڑی میں لعل لیے

آج تلک اس عورت سے آتا ہے خوف خلیلؔ
گھر میں اک دن گھس آئی تھی بکھرے بال لیے