رات کے سانس کی مہکار سے سرشار ہوا
جاگتے شہر سلا دیتی ہے بیدار ہوا
ہو کے سیراب خم شب سے سر دامن گل
صورت ابر برس جاتی ہے مے خوار ہوا
جانے کس طرح خلاؤں میں دھنک بنتی ہے
چاند کی رنگ بھری جھیل کے اس پار ہوا
طالب موج سحر جاتی ہے لہروں پہ سوار
ساحل شب سے اٹھاتی ہے جو پتوار ہوا
کتنی یادیں ہیں کہ جھونکوں کی طرح تیرتی ہیں
چھوڑ آتی ہے سفر میں جنہیں منجدھار ہوا
سر کھلے خاک اڑاتی ہوئی آنگن آنگن
رات کے درد کا کر جاتی ہے اظہار ہوا
چاند کے رس میں بجھے لمحوں کی تنہائی میں
زہر ہجراں میں ہے ڈوبی ہوئی تلوار ہوا
کتنے لمحے تھے کہ اشکوں کی طرح برسے تھے
رات گزری تھی جو گاتی ہوئی ملہار ہوا
زرد شاخوں کی پتاور میں اٹھاتی ہوئی حشر
کیٹسؔ کی نظم کا جیسے کوئی کردار ہوا
وہ تری جھومتی زلفوں کا گھنا جنگل ہے
بھول جاتی ہے جہاں شوخئ رفتار ہوا
آسماں پر سفر موج سحر سے پہلے
روز اٹھا دیتی ہے اک رنگ کی دیوار ہوا
غزل
رات کے سانس کی مہکار سے سرشار ہوا
رفیق خاور جسکانی