EN हिंदी
رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں | شیح شیری
raat ke baad wo subh kahan hai din ke baad wo sham kahan

غزل

رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں

مختار صدیقی

;

رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں
جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قید مقام کہاں

بھیگی رات ہے سونی گھڑیاں اب وہ جلوۂ عام تمام
بندھن توڑ کے جاؤں لیکن اے دل اے ناکام کہاں

اب وہ حسرت رسوا بن کر جزو حیات ہے برسوں سے
جس سے وحشت کرتے تھے تم اب وہ خیال خام کہاں

زیست کی رہ میں اب ہم بے حس تنہا سر بہ گریباں ہیں
کچھ آلام کا ساتھ ہوا تھا وہ بھی نافرجام کہاں

کرنی کرتے راہیں تکتے ہم نے عمر گنوائی ہے
خوبی قسمت ڈھونڈ کے ہاری ہم ایسے ناکام کہاں

اپنے حال کو جان کے ہم نے فقر کا دامن تھاما ہے
جن داموں یہ دنیا ملتی اتنے ہمارے دام کہاں