رات کئی آوارہ سپنے آنکھوں میں لہرائے تھے
شاید وہ خود بھیس بدل کر نیند چرانے آئے تھے
جیون کے وہ پیاسے لمحے برسوں میں راس آئے تھے
رات تری زلفوں کے بادل مستی میں لہرائے تھے
ہائے وہ مہکی مہکی راتیں ہائے وہ بہکے بہکے دن
جب وہ میرے مہماں بن کر میرے گھر میں آئے تھے
تم کو بھی آغاز محبت یاد تو ہوگا کم سے کم
پہلے پہل ملتے ہی نظریں ہم دونوں شرمائے تھے
ہائے وہ ربط و ضبط محبت ہائے یہ پاس شرط وفا
آج نہ ملنے پر بھی خوش ہیں کل مل کر پچھتائے تھے
غزل
رات کئی آوارہ سپنے آنکھوں میں لہرائے تھے
عنوان چشتی