رات کا کیا ذکر ہے شام و سحر آیا نہیں
کون سا الزام ہے جو میرے سر آیا نہیں
یوں تو راہ بے خطر میں رہنما ملتے رہے
پر خطر راہوں میں کوئی راہبر آیا نہیں
کون جانے کس کے ڈر سے آج پھر میرا رفیق
چاہتا تھا میرے گھر آنا مگر آیا نہیں
اس قدر قربت بڑھی ہر نقش دھندلا ہو گیا
وہ تھا میرے سامنے لیکن نظر آیا نہیں
دل کو کیا کہئے کہ وہ قاتل کے گھر خود ہی گیا
لاکھ کوشش کی مگر وہ راہ پر آیا نہیں
لاکھ اندیشوں نے انورؔ گھیر رکھا ہے مجھے
رات سر پر آ گئی اور نامہ بر آیا نہیں
غزل
رات کا کیا ذکر ہے شام و سحر آیا نہیں
انور جمال انور