رات جو موج ہوا نے گل سے دل کی بات کہی
اک اک برگ چمن نے کیسی کیسی بات کہی
آنکھیں رنگ برنگ سجے رستوں سرشار ہوئیں
دل کی خلش نے منظر منظر ایک ہی بات کہی
ہر اظہار کی تہ میں ایک ہی معنی پنہا تھے
اپنی طرف سے سب نے اپنی اپنی بات کہی
آج بھی حرف و بیاں کے سب پیمانے حیراں ہیں
کیسے غزل نے دو سطروں میں پوری بات کہی
سیدھے سادے سے لفظوں میں کہنا مشکل تھا
اس لیے تو ایسی آڑی ترچھی بات کہی
تم کیوں اپنی مرضی کے مفہوم نکالو ہو
اتنا ہی مطلب ہے ہمارا جتنی بات کہی
تم بھی تو مضمون تراشی میں مصروف رہے
تم نے بھی تو عالؔی کم کم اصلی بات کہی
غزل
رات جو موج ہوا نے گل سے دل کی بات کہی
جلیل عالیؔ