EN हिंदी
رات گہری ہے تو پھر غم بھی فراواں ہوں گے | شیح شیری
raat gahri hai to phir gham bhi farawan honge

غزل

رات گہری ہے تو پھر غم بھی فراواں ہوں گے

ساجدہ زیدی

;

رات گہری ہے تو پھر غم بھی فراواں ہوں گے
کتنے بجھتے ہوئے تارے سر مژگاں ہوں گے

قہر ہے ساعت محشر ہے کہ کہرام فنا
خاک اس شہر فنا کوش میں انساں ہوں گے

شہر ہو دشت ہو محفل ہو کہ ویرانہ ہو
ہم جہاں جائیں وہی خار مغیلاں ہوں گے

کیسے اس شہر خرابی میں بسر کی ہم نے
کل جو آئیں گے وہ انگشت بدنداں ہوں گے

شام سے دل میں ترازو ہے کوئی تیر ستم
رات گزرے گی نہ خوابوں کے شبستاں ہوں گے

دید کا بار امانت نہ اٹھے گا اس شب
خونچکاں صبح تلک دیدۂ حیراں ہوں گے

فکر محبوس ہوئی حرف دعا گنگ ہوا
اہل ایمان و نظر خاک بہ داماں ہوں گے