رات گئے زنداں میں جانے کس قیدی کا ماتم تھا
اس کی بیڑیاں چپ چپ سی تھیں اور اجالا کم کم تھا
جانے کیوں گفتار پہ اس کی وہم و گماں کے سائے تھے
بات تو اس کی سیدھی سی تھی لہجہ کچھ کچھ مبہم تھا
فصل بہاراں آئی بھی لیکن چاک گریباں ہو نہ سکے
جانے دلوں پر کیا گزری تھی کون سا اس کا موسم تھا
دشت جنوں میں دھوپ کڑی تھی نوحہ کناں تھے سناٹے
جانے تیری یاد کا بادل سایہ فگن کیوں پیہم تھا
سوختہ ساماں دشت طلب سے لوٹ کے آئے تو دیکھا
سارے گھروں میں ان کا گھر ہی اتنا درہم برہم تھا
خوف و رجا کا صحن چمن میں ایک ہی جیسا حال ہوا
ذکر شعلہ و شبنم بھی تھا برق فنا کا ماتم تھا
راہ وفا میں حرص و ہوا کے اتنے دل کش منظر تھے
اس میں راہیؔ بھٹک گیا وہ آخر ابن آدم تھا
غزل
رات گئے زنداں میں جانے کس قیدی کا ماتم تھا
سید نواب حیدر نقوی راہی