رات دن لب پہ نہ ہو کیونکہ بیان دہلی
نہ مکیں اب وہ رہے اور نہ مکان دہلی
بعض مقتول ہوئے بعضوں نے پھانسی پائی
نام کو بھی نہ رہے پیر و جوان دہلی
شکوہ بے فائدہ کرتا ہے کسی کا ہمدم
تھا مقدر میں لکھا یوں ہی زیان دہلی
نہیں بازار محبت میں خریدارئ دل
چھان ڈالی ہے ہر اک میں نے دوکان دہلی
نہ وہ ارباب طرب ہیں نہ وہ ہیں اہل نشاط
ہاں نظر آتے ہیں کچھ مرثیہ خوان دہلی
غمزہ تھا آفت جاں اور قیامت قامت
عجب انداز کے تھے ماہ رخان دہلی
گھس کے صندل کا لگانا جنہیں درد سر تھا
دل پہ رکھتے ہیں وہ اندوہ گران دہلی
فرش گل پہ جو جھجکتے تھے قدم رکھتے ہوئے
چلتے کانٹوں پہ ہیں وہ نازکنان دہلی
غش پہ غش آتے اگر دیکھتے حضرت یوسف
ایسے انداز کے تھے کج کلہان دہلی
جھک گیا چرخ خجل ہو کے قدم بوسی کو
اس نے دیکھی تھی کبھی رفعت شان دہلی
ہوش جاتے رہے تھرا گئی نار دوزخ
پہنچی افلاک پہ جب آہ و فغان دہلی
خاک جل بھن کے تو ہو جائے گا چرخ بد بیں
نالہ کر بیٹھے جو دل سوختگان دہلی
کچھ عجب نقشہ یہاں کا نظر آتا ہے مجھے
کیونکہ دلی پہ کیا جائے گمان دہلی
اور شہروں کے کریں لاکھ تکلف لیکن
نہیں ہونے کی میسر یہ زبان دہلی
ہیں نئے رنگ نئے روپ جہاں کے مہدیؔ
کف افسوس ہے اور لالہ رخان دہلی
غزل
رات دن لب پہ نہ ہو کیونکہ بیان دہلی
سید مہدی حسین مہدی