EN हिंदी
رات ڈھلتے ہی سفیران قمر آتے ہیں | شیح شیری
raat Dhalte hi safiran-e-qamar aate hain

غزل

رات ڈھلتے ہی سفیران قمر آتے ہیں

حنیف فوق

;

رات ڈھلتے ہی سفیران قمر آتے ہیں
دل کے آئینے میں سو عکس اتر آتے ہیں

سیل مہتاب سے جب نقش ابھر آتے ہیں
اوس گرتی ہے تو پیغام شرر آتے ہیں

ساعت دید کا گلزار ہو یا سایۂ دار
ایسے کتنے ہی مقامات سفر آتے ہیں

جاگتی آنکھوں نے جن لمحوں کو بکھرا دیکھا
وہی لمحے مرے خوابوں میں نکھر آتے ہیں

وقت کی لاش پہ رونے کو جگر ہے کس کا
کس جنازے کو لیے اہل نظر آتے ہیں

رات کی بات ہی کیا رات گئی بات گئی
رات کے خواب کہیں دن کو نظر آتے ہیں

وادیٔ غرب سے پیہم ہے اندھیروں کا نزول
مطلع شرق سے پیغام سحر آتے ہیں