رات دیکھا تھا بھاگتا جنگل
ایک وحشت میں ہانپتا جنگل
اک شکاری نے فاختہ ماری
درد مارے تھا کانپتا جنگل
مجھ کو اپنا ہی خوف ہے صاحب
میرے اندر ہے جاگتا جنگل
بارشوں میں دھمال پڑتی ہے
بوند پی کر ہے ناچتا جنگل
کس نے بوئے ہیں صحن میں کانٹے
کون گھر گھر ہے بانٹتا جنگل
رات بستی میں پھر اترتی ہے
پہلے اس کو ہے پالتا جنگل
اب درندے ہیں شہر میں پھرتے
کاش بابرؔ نہ کاٹتا جنگل
غزل
رات دیکھا تھا بھاگتا جنگل
احمد سجاد بابر