رات چراغ کی محفل میں شامل ایک زمانہ تھا
لیکن ساتھ میں جلنے والی رات تھی یا پروانہ تھا
خضر نہیں رہزن ہی ہوگا راہ میں جس نے لوٹ لیا
لیکن یارو شک ہوتا ہے کچھ جانا پہچانا تھا
شب بھر جس روداد و الم پر اشک بہاتے گزری تھی
صبح ہوئی تو ہم نے جانا اپنا ہی افسانہ تھا
کون ہمارے درد کو سمجھا کس نے غم میں ساتھ دیا
کہنے کو تو ساتھ ہمارے تم کیا ایک زمانہ تھا
لوگ اسے جو چاہیں کہہ لیں اپنا تو یہ حال رہا
صرف انہیں سے زخم ملے ہیں جن سے کچھ یارانہ تھا
مصلحتوں کی اس بستی میں لب کھلتے یہ تاب نہ تھی
وضع جنوں کی بات نہ پوچھو وہ بھی ایک بہانہ تھا
تلخئ غم پہنچے تھے بھلانے سود و زیاں میں الجھے ہیں
بادہ فروشوں کی منڈی تھی نام مگر مے خانہ تھا
جن کی خاطر ہم نے اپنا ذوق طلب بدنام کیا
آج وہی کہتے ہیں ہنس کر شاعر تھا دیوانہ تھا

غزل
رات چراغ کی محفل میں شامل ایک زمانہ تھا
امداد نظامی