EN हिंदी
رات بھی ہے کچھ سونی سونی دن بھی کچھ ویران سا ہے | شیح شیری
raat bhi hai kuchh suni suni din bhi kuchh viran sa hai

غزل

رات بھی ہے کچھ سونی سونی دن بھی کچھ ویران سا ہے

خورشید الاسلام

;

رات بھی ہے کچھ سونی سونی دن بھی کچھ ویران سا ہے
پھول بھی ہیں کچھ سہمے سہمے باغ بھی کچھ حیران سا ہے

قریہ قریہ اوج پہ سر ہیں نوک سناں سر سبز سی ہے
خنجر جھمکیں لعل سے گویا گردن پر احسان سا ہے

دائیں بائیں آگے پیچھے پتھر کی دیواریں ہیں
کس سے کہیے اور کیا کہیے جو بھی کہے نادان سا ہے

دن سے جو بھی رات ملی ہے گریہ کی دیوار سی ہے
رات سے جو بھی دن پایا ہے نوح کا اک طوفان سا ہے

جس کو دیکھو ایسا قاتل چلو سے جو خون پیے
جس کو دیکھو ایسا سادہ جیسے بس انجان سا ہے

لیٹے بیٹھے چپکے چپکے چاٹتے رہنا زخموں کو
رنج کا کچھ اظہار نہیں ہے لطف کا یہ سامان سا ہے

بستی بستی آگ لگے اور گلیوں گلیوں خون بہے
قدرت کا یہ کھیل نہیں ہے قدرت کا فرمان سا ہے