رات بھر فرقت کے سائے دل کو دہلاتے رہے
ذہن میں کیا کیا خیال آتے رہے جاتے رہے
سینکڑوں دل کش بہاریں تھیں ہماری منتظر
ہم تری خواہش میں لیکن ٹھوکریں کھاتے رہے
عمر بھر دیکھا نہ اپنے چاک دامن کی طرف
بس تری الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتے رہے
جن کی خاطر پی گئے رسوائیوں کا زہر بھی
وہ بھری محفل میں ہم پر طنز فرماتے رہے
تیری خاطر عشق میں برباد ہونا تھا ہوئے
ہم نہ مانے لوگ ہم کو لاکھ سمجھاتے رہے
غزل
رات بھر فرقت کے سائے دل کو دہلاتے رہے
ظہیر احمد ظہیر