EN हिंदी
رات بیزار سا گھر سے جو میں تنہا نکلا | شیح شیری
raat bezar sa ghar se jo main tanha nikla

غزل

رات بیزار سا گھر سے جو میں تنہا نکلا

رفیق خاور جسکانی

;

رات بیزار سا گھر سے جو میں تنہا نکلا
چاند بھی جیسے میرے غم کا شناسا نکلا

سر بسر ڈوب گیا رات کے سناٹے میں
چاندنی جس کو میں سمجھا تھا وہ دریا نکلا

دور سے آئی گلی میں کہیں قدموں کی صدا
اپنا گھر چھوڑ کے مجھ سا کوئی تنہا نکلا

سوئی تھی چاندنی پتوں سے ڈھکی سڑکوں پر
ایک جھونکا سر شب خاک اڑاتا نکلا

سامنے گھر کے ترے کوئی کھڑا تھا جیسے
وہم اپنا تری دیوار کا سایا نکلا

چاندنی راہ ملاقات میں دیوار بنی
چاند بھی جیسے ترا چاہنے والا نکلا

رات کے موڑ پہ کون آئنہ بردار ملا
جس کو سمجھا تھا تری یاد زمانہ نکلا

رات بھر موج ہوا سے تری خوشبو آئی
چاند تاروں میں ترا نقش کف پا نکلا

اس بھرے شہر میں ہم چاک گریباں ٹھہرے
جس کو دیکھا وہی سرگرم تماشا نکلا

ہم تو اس دل ہی کو سمجھے تھے بیاباں خاورؔ
چاند بھی دور تک اک رنگ کا صحرا نکلا