EN हिंदी
رات بے خوابیوں کا سفر تیرے بن | شیح شیری
raat be-KHwabiyon ka safar tere bin

غزل

رات بے خوابیوں کا سفر تیرے بن

خواجہ ساجد

;

رات بے خوابیوں کا سفر تیرے بن
دن ہے بے چینیوں کا نگر تیرے بن

قربتیں فاصلوں میں بدلتی رہیں
بد گمانی ہر اک موڑ پر تیرے بن

چاندنی میں سحر، حسن، ٹھنڈک نہ نور
عیب تھا اس کا ہر اک ہنر تیرے بن

خواب خانہ بدوشوں سے پھرتے رہے
نیند بھی ہو گئی در بہ در تیرے بن

میرے بالوں میں چاندی پروتے رہے
تیز رفتار شام و سحر تیرے بن

پھر ترے لوٹنے کی خبر آئی تھی
ہم نہیں تھے کبھی بے خبر تیرے بن

آنکھیں جلتی ہیں میری دیوں کی جگہ
شام سے گھر کی دہلیز پر تیرے بن

اب نہ ساون، نہ جھولے، نہ سکھیاں، نہ گیت
جیسے خاموش سارا نگر تیرے بن

چاندنی ڈھونڈھتی تھی ترے نقش پا
رات، تاروں کی دہلیز پر تیرے بن