رات بے خوابیوں کا سفر تیرے بن
دن ہے بے چینیوں کا نگر تیرے بن
قربتیں فاصلوں میں بدلتی رہیں
بد گمانی ہر اک موڑ پر تیرے بن
چاندنی میں سحر، حسن، ٹھنڈک نہ نور
عیب تھا اس کا ہر اک ہنر تیرے بن
خواب خانہ بدوشوں سے پھرتے رہے
نیند بھی ہو گئی در بہ در تیرے بن
میرے بالوں میں چاندی پروتے رہے
تیز رفتار شام و سحر تیرے بن
پھر ترے لوٹنے کی خبر آئی تھی
ہم نہیں تھے کبھی بے خبر تیرے بن
آنکھیں جلتی ہیں میری دیوں کی جگہ
شام سے گھر کی دہلیز پر تیرے بن
اب نہ ساون، نہ جھولے، نہ سکھیاں، نہ گیت
جیسے خاموش سارا نگر تیرے بن
چاندنی ڈھونڈھتی تھی ترے نقش پا
رات، تاروں کی دہلیز پر تیرے بن
غزل
رات بے خوابیوں کا سفر تیرے بن
خواجہ ساجد