رات باغیچے پہ تھی اور روشنی پتھر میں تھی
اک صحیفے کی تلاوت ذہن پیغمبر میں تھی
آدمی کی بند مٹھی میں ستارہ تھا کوئی
ایک جادوئی کہانی صبح کے منتر میں تھی
ایک رخش سنگ تھا آتش کدے کے سامنے
ایک نیلی موم بتی دست آہن گر میں تھی
بیچ میں سوئی ہوئی تھی آتش آیندگاں
ایک پیراہن کی ٹھنڈک دھوپ کی چادر میں تھی
پاؤں ساکت ہو گئے ثروتؔ کسی کو دیکھ کر
اک کشش مہتاب جیسی چہرۂ دل بر میں تھی

غزل
رات باغیچے پہ تھی اور روشنی پتھر میں تھی
ثروت حسین