رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا
یہ ستارہ نیند کی تہذیب سے پیدا ہوا
ذہن کی زرخیز مٹی سے نئے چہرے اگے
جو مری یادوں میں زندہ ہے سراسیمہ ہوا
میری آنکھوں میں انوکھے جرم کی تجویز تھی
صرف دیکھا تھا اسے اس کا بدن میلا ہوا
وہ کوئی خوش بو ہے میری سانس میں بہتی ہوئی
میں کوئی آنسو ہوں اس کی روح میں گرتا ہوا
اس کے ملنے اور بچھڑ جانے کا منظر ایک ہے
کون اتنے فاصلوں میں بے حجاب ایسا ہوا
غزل
رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا
ساقی فاروقی