EN हिंदी
رات اندر اتر کے دیکھا ہے | شیح شیری
raat andar utar ke dekha hai

غزل

رات اندر اتر کے دیکھا ہے

صغیر ملال

;

رات اندر اتر کے دیکھا ہے
کتنا حیران کن تماشا ہے

ایک لمحے کو سوچنے والا
ایک عرصے کے بعد بولا ہے

میرے بارے میں جو سنا تو نے
میری باتوں کا ایک حصہ ہے

شہر والوں کو کیا خبر کہ کوئی
کون سے موسموں میں زندہ ہے

جا بسی دور بھائی کی اولاد
اب وہی دوسرا قبیلہ ہے

بانٹ لیں گے نئے گھروں والے
اس حویلی کا جو اثاثہ ہے

کیوں نہ دنیا میں اپنی ہو وہ مگن
اس نے کب آسمان دیکھا ہے

آخری تجزیہ یہی ہے ملالؔ
آدمی دائروں میں رہتا ہے