رات آنسو کو تری آنکھ میں دیکھا ہم نے
رکھ دیا توڑ کے جیسے کوئی تارا ہم نے
گمشدہ جسم ملے حلقۂ بازو جاگے
شام سے اوڑھ لیا آج سویرا ہم نے
غم میں خوش رہتے ہیں ہر سایۂ قربت سے دور
اب بدل ڈالا مزاج اہل وفا کا ہم نے
اوس میں مہکی ہوئی رات کے پونچھے آنسو
صبح کو دے دیا ہنستا ہوا چہرا ہم نے
ختم خوش فہمئ سیرابی ہوئی ہونٹوں تک
آنکھ سے دیکھا ہے پیاسا کوئی دریا ہم نے
چکھ لیا جذبۂ وارفتہ نے اک رنگ حیات
کر لیا اپنے لب سادہ کو جھوٹا ہم نے
غزل
رات آنسو کو تری آنکھ میں دیکھا ہم نے
ذکاء الدین شایاں