رات آخر ہو ستم پیشوں پہ ایسا بھی نہیں
وقت رک جائے کہیں آ کے یہ ہوتا بھی نہیں
اپنے ہونے کی سزا کس کو ملا کرتی ہے
کس کو یہ زخم دکھاؤں جو ہویدا بھی نہیں
منتظر آئینہ خانے ہیں نہ جانے کس کے
شہر تمثال میں اب تو کوئی چہرہ بھی نہیں
تجھ سے منسوب تھے سب جور سہے ہم نے مگر
پاس ناموس محبت تھا پکارا بھی نہیں
کوئی حاصل نہیں اس کار جنوں کا راشدؔ
کھیلتا آگ سے ہوں اور تماشا بھی نہیں
غزل
رات آخر ہو ستم پیشوں پہ ایسا بھی نہیں
راشد طراز