EN हिंदी
رات آخر ہو ستم پیشوں پہ ایسا بھی نہیں | شیح شیری
raat aaKHir ho sitam-peshon pe aisa bhi nahin

غزل

رات آخر ہو ستم پیشوں پہ ایسا بھی نہیں

راشد طراز

;

رات آخر ہو ستم پیشوں پہ ایسا بھی نہیں
وقت رک جائے کہیں آ کے یہ ہوتا بھی نہیں

اپنے ہونے کی سزا کس کو ملا کرتی ہے
کس کو یہ زخم دکھاؤں جو ہویدا بھی نہیں

منتظر آئینہ خانے ہیں نہ جانے کس کے
شہر تمثال میں اب تو کوئی چہرہ بھی نہیں

تجھ سے منسوب تھے سب جور سہے ہم نے مگر
پاس ناموس محبت تھا پکارا بھی نہیں

کوئی حاصل نہیں اس کار جنوں کا راشدؔ
کھیلتا آگ سے ہوں اور تماشا بھی نہیں