راستے یاد نہیں راہنما یاد نہیں
اب مجھے کچھ تری گلیوں کے سوا یاد نہیں
پھر خیالوں میں وہ بیتے ہوئے ساون آئے
لیکن اب تجھ کو پپیہے کی صدا یاد نہیں
ایک وعدہ تھا جو شیشے کی طرح ٹوٹ گیا
حادثہ کب یہ ہوا کیسے ہوا یاد نہیں
ہم دیا کرتے تھے اغیار کو طعنہ جن کا
اب تو ہم کو بھی وہ آداب وفا یاد نہیں
وضع داری سے ہے مجبور مرا پیار قتیلؔ
سب پرانے ہیں کوئی داغ نیا یاد نہیں
غزل
راستے یاد نہیں راہنما یاد نہیں
قتیل شفائی