راستے پر ہے کائی کی مخمل
پاؤں تیرا کہیں نہ جائے پھسل
ہات پھیلائے خشک پیڑوں نے
دیکھ کر دور دودھیا بادل
دل ہے خاموش جھیل کی صورت
کنکری پھینکیے کہ ہو ہلچل
سرفروشوں کو ہے تلاش اس کی
چھپ گئی ہے کہاں پہ جا کے اجل
کھول کر کاگ سوچ میں گم ہوں
بڑبڑاتی ہے میز پر بوتل
آپ کس پیڑ کو بچائیں گے
جل رہا ہے تمام ہی جنگل
پیچ و خم ہیں کہیں نہ ہریالی
زیست میدان کی طرح چٹیل
غزل
راستے پر ہے کائی کی مخمل
محمود عشقی