EN हिंदी
راستے میں کہیں کھونا ہی تو ہے | شیح شیری
raste mein kahin khona hi to hai

غزل

راستے میں کہیں کھونا ہی تو ہے

زیب غوری

;

راستے میں کہیں کھونا ہی تو ہے
پاؤں کیوں روکوں کہ دریا ہی تو ہے

کون قاتل ہے یہاں بسمل کون
قتل ہو لے کہ تماشا ہی تو ہے

وہ چمکتی ہوئی موجیں ہیں کہاں
اس طرف بھی وہی صحرا ہی تو ہے

مرگ و ہستی میں بہت فرق ہے کیا
دفن کر دو اسے زندہ ہی تو ہے

نارسائی کا اٹھا رنج نہ زیبؔ
حاصل زیست کہ دھوکا ہی تو ہے