راستے میں کہیں کھونا ہی تو ہے
پاؤں کیوں روکوں کہ دریا ہی تو ہے
کون قاتل ہے یہاں بسمل کون
قتل ہو لے کہ تماشا ہی تو ہے
وہ چمکتی ہوئی موجیں ہیں کہاں
اس طرف بھی وہی صحرا ہی تو ہے
مرگ و ہستی میں بہت فرق ہے کیا
دفن کر دو اسے زندہ ہی تو ہے
نارسائی کا اٹھا رنج نہ زیبؔ
حاصل زیست کہ دھوکا ہی تو ہے
غزل
راستے میں کہیں کھونا ہی تو ہے
زیب غوری