EN हिंदी
راستے خوف زدہ کرتے رہے | شیح شیری
raste KHauf-zada karte rahe

غزل

راستے خوف زدہ کرتے رہے

جاوید اکرم فاروقی

;

راستے خوف زدہ کرتے رہے
ہم سفر میں تھے دعا کرتے رہے

مسکرانے کی سزا ملتی رہی
مسکرانے کی خطا کرتے رہے

عمر بھر قرض ادا ہو نہ سکا
عمر بھر قرض ادا کرتے رہے

خواب آنکھوں سے جدا ہو نہ سکے
خواب آنکھوں سے جدا کرتے رہے

آپ نے جو بھی کہا ہم نے سنا
آپ نے جو بھی کہا کرتے رہے

وقت بھی ہم سے گلا کرتا رہا
وقت سے ہم بھی گلا کرتے رہے

اور وہ پاس وفا کر نہ سکے
اور ہم پاس وفا کرتے رہے