راستے جس طرف بلاتے ہیں
ہم اسی سمت چلتے جاتے ہیں
روز جاتے ہیں اپنے خوابوں تک
روز چپ چاپ لوٹ آتے ہیں
اڑتے پھرتے ہیں جو خس و خاشاک
یہ کوئی داستاں سناتے ہیں
یہ محبت بھی ایک نیکی ہے
اس کو دریا میں ڈال آتے ہیں
یاد کے اس کھنڈر میں اکثر ہم
اپنے دل کا سراغ پاتے ہیں
شام سے جل رہے ہیں بے مصرف
ان چراغوں کو اب بجھاتے ہیں
غزل
راستے جس طرف بلاتے ہیں
انعام ندیمؔ