راس آتی ہے بہت آب و ہوا صحرا کی
جانے دے دی ہے تجھے کس نے دعا صحرا کی
تجھ کو ملنے سے رہا شہر میں وحشت کا علاج
تجھ کو شاید کہ شفا بخشے ہوا صحرا کی
ہم تو لیتے ہیں مزا گھر میں ہی ویرانی کا
ناز برداری کرے کون بھلا صحرا کی
اک سمندر ہے مری ذات کے پیمانے میں
ڈال رکھی ہے مگر اس پہ ردا صحرا کی
تیرا ہم زاد تجھے شہر میں ملنے سے رہا
باندھ لے رخت سفر خاک اڑا صحرا کی
غزل
راس آتی ہے بہت آب و ہوا صحرا کی
مرزا اطہر ضیا