راہیں دھواں دھواں ہیں سفر گرد گرد ہے
یہ منزل مراد تو بس درد درد ہے
اپنے پڑوسیوں کو بھی پہچانتا نہیں
محصور اپنے خول میں اب فرد فرد ہے
اس موسم بہار میں اے باغباں بتا
چہرہ ہر ایک پھول کا کیوں زرد زرد ہے
لفاظیوں کا گرم ہے بازار کس قدر
دست عمل ہمارا مگر سرد سرد ہے
کیسا تضاد شاخ تمنا میں ہے اسدؔ
خود یہ ہری ہری ہے ثمر زرد زرد ہے
غزل
راہیں دھواں دھواں ہیں سفر گرد گرد ہے
اسد رضا