راہ ملتی ہے گھر نہیں ملتا
گھر ملے بھی تو در نہیں ملتا
جس کو دیکھا تھا میں نے بچپن میں
اب مجھے وہ نگر نہیں ملتا
دیکھتا ہوں جو خود کو پانی میں
جسم ملتا ہے سر نہیں ملتا
مجھ کو ان زندگی کی راہوں میں
کوئی بھی ہم سفر نہیں ملتا
جانے کیا ہو گیا ہے موسم کو
سبز کوئی شجر نہیں ملتا
تجھ کو سلمانؔ تیری محنت کا
جانے اب کیوں ثمر نہیں ملتا
غزل
راہ ملتی ہے گھر نہیں ملتا
سلمان سعید