راہ میں یوں تو مرحلے ہیں بہت
ہم سفر پھر بھی آ گئے ہیں بہت
یہ الگ بات ہم نہ ڈھونڈھ سکے
ورنہ منزل کے راستے ہیں بہت
جن کو منزل نہ راستے کا پتہ
ایسے رہبر ہمیں ملے ہیں بہت
آؤ سورج کو چھین کر لائیں
یہ اندھیرے تو بڑھ گئے ہیں بہت
دور کی منزلیں ہیں نظروں میں
اب کے یاروں کے حوصلے ہیں بہت
اک جنوں کا جو دور تھا مجھ پر
اس کے قصے ہی بن گئے ہیں بہت
بات کیا ہے کہ ان دنوں ہم لوگ
سوچتے کم ہیں بولتے ہیں بہت
غزل
راہ میں یوں تو مرحلے ہیں بہت
بلبیر راٹھی