EN हिंदी
راہ کی کچھ تو رکاوٹ یار کم کر دیجیے | شیح شیری
rah ki kuchh to rukawaT yar kam kar dijiye

غزل

راہ کی کچھ تو رکاوٹ یار کم کر دیجیے

فرحت احساس

;

راہ کی کچھ تو رکاوٹ یار کم کر دیجیے
آپ اپنے گھر کی اک دیوار کم کر دیجیے

آپ کا عاشق بہت کمزور دل کا ہے حضور
دیکھیے یہ شدت انکار کم کر دیجیے

میں بھی ہونٹوں سے کہوں گا کم کریں جلنے کا شوق
آپ اگر سرگرمیٔ رخسار کم کر دیجیے

ایک تو شرم آپ کی اور اس پہ تکیہ درمیاں
دونوں دیواروں میں اک دیوار کم کر دیجیے

آپ تو بس کھولیے لب بوسہ دینے کے لئے
بوسہ دینے پر جو ہے تکرار کم کر دیجیے

رات کے پہلو میں پھیلا دیجیے زلف دراز
یوں ہی کچھ طول شب بیمار کم کر دیجیے

یا ادھر کچھ تیز کر دیجے گھروں کی روشنی
یا ادھر کچھ رونق بازار کم کر دیجیے

وہ جو پیچھے رہ گئے ہیں تیز رفتاری کریں
آپ آگے ہیں تو کچھ رفتار کم کر دیجیے

ہاتھ میں ہے آپ کے تلوار کیجے قتل عام
ہاں مگر تلوار کی کچھ دھار کم کر دیجیے

بس محبت بس محبت بس محبت جان من
باقی سب جذبات کا اظہار کم کر دیجیے

شاعری تنہائی کی رونق ہے محفل کی نہیں
فرحتؔ احساس اپنا یہ دربار کم کر دیجیے