EN हिंदी
راہ طلب میں اہل دل جب حد عام سے بڑھے | شیح شیری
rah-e-talab mein ahl-e-dil jab had-e-am se baDhe

غزل

راہ طلب میں اہل دل جب حد عام سے بڑھے

اعجاز وارثی

;

راہ طلب میں اہل دل جب حد عام سے بڑھے
کشمکش حیات کے اور بھی حوصلے بڑھے

کس سے یہ پوچھئے بھلا تشنہ لبوں کو کیا ملا
کہنے کو یوں تو روز ہی سیکڑوں میکدے بڑھے

کوشش پیہم آفریں منزل اب آ گئی قریب
مژدہ ہو آرزوئے دل پاؤں کے آبلے بڑھے

آتے ہی اس نے بزم میں رخ پہ نقاب ڈال لی
ہائے وہ منظر حسیں جیسے دئے جلے بڑھے

وقت کی آزمائشیں لاتی ہیں زیست پر نکھار
پھولوں کو دیکھ لیجئے کانٹوں میں جو پلے بڑھے

تابش حسن یار نے چھین لی تاب عرض شوق
جتنے قریب آئے وہ اتنے ہی فاصلے بڑھے

راہوں کے رخ بدل گئے منزلیں دور ہو گئیں
خضر کے اعتبار پر جب کبھی قافلے بڑھے