راہ جنوں پہ چل پرے جینا محال کر لیا
ہم نے تلاش حسن میں خود کو نڈھال کر لیا
مجھ کو تو خیر چھوڑیئے میری تو بات اور تھی
یہ بھی بہت ہے اس نے کچھ اپنا خیال کر لیا
کیسے وہ دن تھے پیار کے خود پہ بھی جب یقین تھا
پل میں جدائی ڈال لی پل میں وصال کر لیا
جیسے رہے ہیں وصل میں مرتے رہے ہیں ہجر میں
یہ بھی کمال کر لیا وہ بھی کمال کر لیا
اپنی بھی کچھ خبر نہیں دل کی بھی کچھ خبر نہیں
ہم نے تمہارے ہجر میں کیسا یہ حال کر لیا
غزل
راہ جنوں پہ چل پرے جینا محال کر لیا
آصف شفیع