EN हिंदी
راہ دونوں کی وہی ہے سامنا ہو جائے گا | شیح شیری
rah donon ki wahi hai samna ho jaega

غزل

راہ دونوں کی وہی ہے سامنا ہو جائے گا

اقبال ماہر

;

راہ دونوں کی وہی ہے سامنا ہو جائے گا
ہوگا نظروں کا تصادم حادثہ ہو جائے گا

تم سے چھوٹا بھی اگر تو زندگی ہے اک سفر
ساتھ میرے اور کوئی دوسرا ہو جائے گا

دل کی افتاد طبیعتی کو بھلا روکے گا کون
پھر کسی غم میں کسی دن مبتلا ہو جائے گا

قافلے والوں میں تبلیغ سفر کرتے رہو
کچھ نہ کچھ تو رہبری کا حق ادا ہو جائے گا

اس سے بے مقصد بھی تم یوں ہی اگر ملتے رہے
وہ غلط فہمی میں اک دن مبتلا ہو جائے گا

کیا خبر تھی اک سرائے کے مسافر کی طرح
ہم سفر ہوگا وہ میرا پھر جدا ہو جائے گا

عزم منزل ہے تو ماہرؔ بے خطر بڑھتے چلو
ان چٹانوں میں بھی پیدا راستہ ہو جائے گا