EN हिंदी
رائیگانی کا عارضہ ہے مجھے | شیح شیری
raegani ka aariza hai mujhe

غزل

رائیگانی کا عارضہ ہے مجھے

اسحاق وردگ

;

رائیگانی کا عارضہ ہے مجھے
زندگی ایک حادثہ ہے مجھے

اس خرابے سے کب گلہ ہے مجھے
اپنا ہونا ہی مسئلہ ہے مجھے

ضمنی کردار ہوں کہانی کا
اپنی تقدیر کا پتہ ہے مجھے

مجھ کو اندر کی کچھ خبر ہی نہیں
اور باہر کا سب پتہ ہے مجھے

دشت میں شہر یاد آتا ہے
عشق کا پہلا تجربہ ہے مجھے

وقت کا راز جاننے سے میاں
جانے یہ کون روکتا ہے مجھے

ایک لمحے کو رک کے سن لے اسے
اے زمیں تجھ سے جو گلہ ہے مجھے

میری ہی آنکھ کے وسیلے سے
خواب اندر سے دیکھتا ہے مجھے

کتنے چہرے اٹھائے پھرتا ہوں
آئینہ پھر بھی جانتا ہے مجھے

اک خوشی سود پر ملی تھی کہیں
اس کا قرضہ اتارنا ہے مجھے

یوں ہی خاموش میں نہیں بیٹھا
شور اندر کا ٹوکتا ہے مجھے