قربتوں میں فاصلے کچھ اور ہیں
خواہشوں کے زاویے کچھ اور ہیں
سن رہے ہیں کان جو کہتے ہیں سب
لوگ لیکن سوچتے کچھ اور ہیں
رہبری اب شرط منزل کب رہی
آؤ ڈھونڈیں راستے کچھ اور ہیں
یہ تو اک بستی تھکے لوگوں کی ہے
راہ میں جو لٹ گئے کچھ اور ہیں
مل رہے ہیں گرچہ پہلے کی طرح
وہ مگر اب چاہتے کچھ اور ہیں
غزل
قربتوں میں فاصلے کچھ اور ہیں
فاطمہ حسن