EN हिंदी
قربتوں میں فاصلے کچھ اور ہیں | شیح شیری
qurbaton mein fasle kuchh aur hain

غزل

قربتوں میں فاصلے کچھ اور ہیں

فاطمہ حسن

;

قربتوں میں فاصلے کچھ اور ہیں
خواہشوں کے زاویے کچھ اور ہیں

سن رہے ہیں کان جو کہتے ہیں سب
لوگ لیکن سوچتے کچھ اور ہیں

رہبری اب شرط منزل کب رہی
آؤ ڈھونڈیں راستے کچھ اور ہیں

یہ تو اک بستی تھکے لوگوں کی ہے
راہ میں جو لٹ گئے کچھ اور ہیں

مل رہے ہیں گرچہ پہلے کی طرح
وہ مگر اب چاہتے کچھ اور ہیں