قربتیں نہیں رکھیں فاصلہ نہیں رکھا
ایک بار بچھڑے تو رابطہ نہیں رکھا
اتنا تو سمجھتے تھے ہم بھی اس کی مجبوری
انتظار تھا لیکن در کھلا نہیں رکھا
ہم کو اپنے بارے میں خوش گمانیاں کیوں ہوں
ہم نے روبرو اپنے آئینہ نہیں رکھا
جب پتہ چلا اس میں صرف خون جلتا ہے
اس کے بعد سوچوں کا سلسلہ نہیں رکھا
ہر دفعہ وہی چہرے بارہا وہی باتیں
ان پرانی یادوں میں کچھ نیا نہیں رکھا
اپنے اپنے رستے پر سب نکل گئے اک دن
ساتھ چلنے والوں نے حوصلہ نہیں رکھا
جب ہوا کے رخ پر ہی کشتیوں کو بہنا تھا
تم نے بادبانوں کو کیوں کھلا نہیں رکھا
ہم کو اپنے بارے میں حرف حرف لکھنا تھا
داستان لمبی تھی حاشیہ نہیں رکھا
غزل
قربتیں نہیں رکھیں فاصلہ نہیں رکھا
بھارت بھوشن پنت