قربت کے ان دنوں میں بھی جانا پڑا مجھے
آنکھوں سے اپنی راز چھپانا پڑا مجھے
دل کو تو میں نے جھوٹ سے بہلا لیا مگر
تھوڑا بہت تو شور مچانا پڑا مجھے
وہ چاہتا تھا کھیلنا میرے ہی جسم سے
پھر درمیان عشق کے آنا پڑا مجھے
اس کو تھا شوق بیچ سمندر میں مرنے کا
ساحل کو کھینچ کھینچ کے لانا پڑا مجھے
بے رنگ کرنی تھی مجھے اپنی یہ زندگی
سو شاعری میں رنگ گرانا پڑا مجھے
اس کا یہ ماننا تھا کہ میں اس سے بڑھ کے ہوں
کر کے تباہ خود کو گھٹانا پڑا مجھے
تو بن رہا خدا ہے تو یہ بھی حساب دے
کتنا بگاڑ کر کے بنانا پڑا مجھے
اس شعر کو سنانا تھا اس شخص کو مجھے
محفل میں آپ کی یہ سنانا پڑا مجھے
غزل
قربت کے ان دنوں میں بھی جانا پڑا مجھے
منتظر فیروز آبادی