EN हिंदी
قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا | شیح شیری
qulzum-e-ulfat mein wo tufan ka aalam hua

غزل

قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا

شیر سنگھ ناز دہلوی

;

قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا
جو سفینہ دل کا تھا درہم ہوا برہم ہوا

تھامنا مشکل دل مضطر کو شام غم ہوا
یاد آتے ہی کسی کی حشر کا عالم ہوا

کیا بتائیں کس طرح گزری شب وعدہ مری
منتظر آنکھیں رہیں دل کا عجب عالم ہوا

دیکھتے رہتے ہیں اس میں سارے عالم کا ظہور
آئینہ دل کا ہمارے رشک جام جم ہوا

وہ عدو کو ساتھ لائے ہیں مرے گھر دیکھیے
شربت دیدار کے نسخے میں داخل سم ہوا

آپ کے تیر نظر سے دل کا بچنا ہے محال
جس کو دیکھا آنکھ بھر کر بس وہی ہم دم ہوا

کس قدر تسکین رنجور محبت کو ہوئی
پیار سے دیکھا جو اس نے زخم کو مرہم ہوا

جب اٹھایا یار نے روئے منور سے نقاب
گر پڑا غش کھا کے کوئی اور کوئی بے دم ہوا

گلشن ہستی میں انساں کی نہیں کچھ زندگی
جو ہوا پیدا مثال قطرۂ شبنم ہوا

گیسوئے پر خم ہوئے ان کے پریشاں سوگ میں
میرے مرنے سے دیار حسن میں ماتم ہوا

بعد مرنے کے ہوا دنیا میں یوں مشہور نازؔ
شان سے تابوت اٹھا دھوم کا ماتم ہوا