قبول ہوتی ہوئی بد دعا سے ڈرتے ہیں
وگرنہ لوگ کہاں یہ خدا سے ڈرتے ہیں
چلو کہ فیصلہ آخر یہاں تمام ہوا
یہ کم نصیب تری خاک پا سے ڈرتے ہیں
سبھی سے کہتے ہیں بس خیر کی دعا مانگو
کبھی کبھی تو ہم اتنا خدا سے ڈرتے ہیں
یہی برائی ہے بجھتے ہوئے چراغوں میں
یہ خشک پتوں کی صورت ہوا سے ڈرتے ہیں
جو دیکھتے ہیں اسے کچھ نہیں سمجھتے مگر
جو دیکھنا ہے اسی کی سزا سے ڈرتے ہیں
غزل
قبول ہوتی ہوئی بد دعا سے ڈرتے ہیں
ازلان شاہ