قصۂ خاک تو کچھ خاک سے آگے تک تھا
گیلی مٹی کا سفر چاک سے آگے تک تھا
میں بشر تھا سو مرے پاؤں سے لپٹی تھی زمیں
اور چرچا مرا افلاک سے آگے تک تھا
شعلۂ عشق غم ہجر سر شہر ہجوم
اک گریبان تھا صد چاک سے آگے تک تھا
خامشی کرب لہو رنگ میں ڈوبے ہوئے پھول
مرحلہ دیدۂ نمناک سے آگے تک تھا
لوٹ آیا ہوں یہی دیکھ کے اک دشت سے میں
ایک جبہ میری پوشاک سے آگے تک تھا
رہ گئیں شہر خرد میں ہی الجھ کر سوچیں
اک جہاں اور بھی ادراک سے آگے تک تھا
دست سقراط پہ رکھے ہوئے پیالے کا امین
زہر قاتل کسی تریاک سے آگے تک تھا
غزل
قصۂ خاک تو کچھ خاک سے آگے تک تھا
امین اڈیرائی