قسمت شوق آزما نہ سکے
ان سے ہم آنکھ بھی ملا نہ سکے
ہم سے یاں رنج ہجر اٹھ نہ سکا
واں وہ مجبور تھے وہ آ نہ سکے
ڈر یہ تھا رو نہ دیں کہیں وہ انہیں
ہم ہنسی میں بھی گدگدا نہ سکے
ہم سے دل آپ نے اٹھا تو لیا
پر کہیں اور بھی لگا نہ سکے
اب کہاں تم کہاں وہ ربط وفا
یاد بھی جس کی ہم دلا نہ سکے
دل میں کیا کیا تھے عرض حال کے شوق
اس نے پوچھا تو کچھ بتا نہ سکے
ہم تو کیا بھولتے انہیں حسرتؔ
دل سے وہ بھی ہمیں بھلا نہ سکے
غزل
قسمت شوق آزما نہ سکے
حسرتؔ موہانی