قسمت برے کسی کے نہ اس طرح لائے دن
آفت نئی ہے روز مصیبت ہے آئے دن
دن سن یہ اور دن دئیے اللہ کی پناہ
اس ماہ نے تو خوب ہی ہم سے گنائے دن
ہے دم شماری دن کو تو اختر شماری شب
اس طرح تو خدا نہ کسی کے کٹائے دن
ان کی نظر پھری ہو تو کیا اپنے دن پھریں
ابر سیہ گھرا ہو تو کیا منہ دکھائے دن
جی جانتا ہے کیونکہ یہ کٹتے ہیں روز و شب
دشمن کو بھی خدا نہ کبھی یہ دکھائے دن
کیا لطف زیست بھرتے ہیں دن زندگی کے ہم
کیفیؔ برے کسی کے نہ تقدیر لائے دن
غزل
قسمت برے کسی کے نہ اس طرح لائے دن
دتا تریہ کیفی