قیام میں بھی کسی راہ پر روانہ تھا
مرا مزاج ازل سے مسافرانہ تھا
پڑا تھا اس کے بھی رخ پر نقاب ناموجود
مری بھی آنکھ پہ اک دست غائبانہ تھا
ہم اپنی روح ترے جسم ہی میں چھوڑ آئے
تجھے گلے سے لگانا تو اک بہانہ تھا
ترے حصول کی بازی بھی کتنی مشکل تھی
ادھر میں یکہ و تنہا ادھر زمانہ تھا
میں اس کو دیکھتا رہتا تھا اس کی آنکھوں سے
خیال و خواب کا موسم بڑا سہانا تھا

غزل
قیام میں بھی کسی راہ پر روانہ تھا
محسن چنگیزی