قیام گاہ نہ کوئی نہ کوئی گھر میرا
ازل سے تا بہ ابد صرف اک سفر میرا
خراج مجھ کو دیا آنے والی صدیوں نے
بلند نیزے پہ جب ہی ہوا ہے سر میرا
عطا ہوئی ہے مجھے دن کے ساتھ شب بھی مگر
چراغ شب میں جلا دیتا ہے ہنر میرا
سبھی کے اپنے مسائل سبھی کی اپنی انا
پکاروں کس کو جو دے ساتھ عمر بھر میرا
میں غم کو کھیل سمجھتا رہا ہوں بچپن سے
بھرم یہ آج بھی رکھ لینا چشم تر میرا
مرے خدا میں تری راہ جس گھڑی چھوڑوں
اسی گھڑی سے مقدر ہو در بہ در میرا
غزل
قیام گاہ نہ کوئی نہ کوئی گھر میرا
انور جلال پوری