قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خط جام مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا
اعتبار عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
گرمیٔ دولت ہوئی آتش زن نام نکو
خانۂ خاتم میں یاقوت نگیں اختر ہوا
نشہ میں گم کردہ راہ آیا وہ مست فتنہ خو
آج رنگ رفتہ دور گردش ساغر ہوا
درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست
ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا
زہد گردیدن ہے گرد خانہ ہائے منعماں
دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا
اے بہ ضبط حال نا افسردگاں جوش جنوں
نشۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا
اس چمن میں ریشہ داری جس نے سر کھینچا اسدؔ
تر زبان لفظ عام ساقیٔ کوثر ہوا
غزل
قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
مرزا غالب