قصر ویران ہوا جاتا ہے
دل پریشان ہوا جاتا ہے
حرم و دیر کے جلووں کی قسم
کفر ایمان ہوا جاتا ہے
تاب نظارہ الٰہی توبہ
جلوہ حیران ہوا جاتا ہے
نالہ آغوش اثر تک آ کر
خود پشیمان ہوا جاتا ہے
بے پیے شیخ فرشتہ تھا مگر
پی کے انسان ہوا جاتا ہے
دل ہے آمادۂ تکمیل نشاط
غم کا سامان ہوا جاتا ہے
کچھ نہیں ہستیٔ پروانہ مگر
بزم کی جان ہوا جاتا ہے
اللہ اللہ کہ انہیں کا پرتو
ان پہ قربان ہوا جاتا ہے
ہر ورق شرح محبت کا شکیلؔ
اپنا دیوان ہوا جاتا ہے
غزل
قصر ویران ہوا جاتا ہے
شکیل بدایونی