قسم ان آنکھوں کی جن سے لہو ٹپکتا ہے
مرے جگر میں اک آتش کدہ دہکتا ہے
گزشتہ کاہش و اندوہ کے خیال ٹھہر
مرے دماغ میں شعلہ سا اک بھڑکتا ہے
کسی کے عیش تمنا کی داستاں نہ کہو
کلیجہ میری تمناؤں کا دھڑکتا ہے
علاج اخترؔ ناکام کیوں نہیں ممکن
اگر وہ جی نہیں سکتا تو مر تو سکتا ہے
غزل
قسم ان آنکھوں کی جن سے لہو ٹپکتا ہے
اختر انصاری